اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

ماہ رمضان کے بارے میں کوئی خاص اذکار نہیں بتلائے گئے۔

07-06-2017

سوال 221247

ہمارے علاقے کے امام ہر نماز کے بعد : " أشهد أن لا إله إلا الله ، أستغفر الله ، نسألك الجنة ونعوذ بك من النار " تین بار کہتے ہیں، تو کیا یہ سنت سے ثابت ہے؟ اور کیا ہم بھی اسے بار بار کہہ سکتے ہیں؟ اس کے علاوہ اور کون سی دعائیں ہیں؟ مجھے یہ دعائیں بتلائیں تا کہ میں آج سے ہی ان پر عمل شروع کر دوں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

احادیث مبارکہ  میں رمضان المبارک سے متعلق خصوصی اذکار اور دعائیں  نہیں بتلائیں گئیں، تاہم صرف آخری عشرے میں لیلۃ القدر کی تلاش کیلیے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ: وہ کہتی ہیں: "میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول: اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ کونسی  رات لیلۃ القدر کی ہے تو میں اس میں کیا کہوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم کہو: اَللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي)[یا اللہ! تو ہی معاف کرنے والا ہے، تو  معاف کرنے کو پسند بھی کرتا ہے، لہذا مجھے معاف فرما دے]" ترمذی (3513)نے اسے روایت کیا ہے اور حسن صحیح قرار دیا۔

لیلۃ القدر میں عبادات سے متعلق مزید دیکھنے کیلیے سوال نمبر: (36832 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

اس کے علاوہ احادیث مبارکہ میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے  کہ جن میں مخصوص اذکار، یا معین تعداد  اور اجر کے ساتھ ورد کا ذکر کیا گیا ہو۔

رمضان میں مسلمان کے لئے ہر وقت ذکر الہی میں مصروف رہنا مستحب ہے، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی عادت مبارکہ تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ مبارک کی راتوں سے مستفید ہونے کیلیے ذکر اور دعا دونوں کا اہتمام فرماتے تھے، خصوصاً سحری کے وقت، جمعہ کے دن عصر کے بعد کا وقت اور اسی طرح کے دیگر دعا کی قبولیت کے اوقات کا خیال رکھتے تھے، لہذا مسلمان کو ایسے اوقات میں سچے دل کے ساتھ  جنت  مانگنی چاہیے اور جہنم سے پناہ طلب کرنی چاہیے۔

امام شاطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"چنانچہ بدعت  دین میں پیدا کردہ ایسے طریقے کا نام ہے جو شریعت کے بالمقابل کھڑا کیا جائے، اس طریقے پر چلنے والے کا مقصد اللہ تعالی کی بندگی میں مبالغہ  ہوتا ہے۔۔۔ انہی بدعات میں یہ بھی شامل ہے کہ: عبادت کیلیے مخصوص کیفیت، طور  اور طریقہ لازمی قرار دے دیا جائے، مثلاً: اجتماعی طور پر بیک آواز ہو کر  ذکر کرنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے دن کو عید  کا دن قرار دینا اور اسی طرح کے دیگر امور  بدعت ہی شمار ہوں گے، نیز مخصوص اوقات  اور جگہوں میں عبادات  کرنا  بھی بدعت ہی شمار ہو گا جن کے مختص کرنے کے متعلق کوئی شرعی دلیل نہ پائی جائے۔" انتہی
"الاعتصام" (1/ 37 - 39)

اسی مناسبت سے ہم اس بات کی طرف بھی توجہ دلانا چاہیں گے کہ:  بہت سے فورمز، سماجی رابطے کی ویب سائٹس وغیرہ پر ماہ رمضان کے ہر دن کے متعلق مخصوص دعائیں ذکر کی جا رہی ہیں یہ سب کی سب لوگوں کی اپنی بنائی ہوئی ہیں ، نشر کرنے والوں کو وہ دعائیں پسند آئیں تو انہوں نے انہیں نشر کر دیا ، پھر پڑھنے والوں نے یہ سمجھا کہ یہ دعائیں شرعی طور پر ان ایام اور دنوں کے ساتھ مختص ہیں۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے دعاؤں کو دنوں کے ساتھ مختص کر دینا سنت طریقہ نہیں ہے اور نہ ہی عبادات کیلیے ثابت شدہ طریقے میں  شامل ہے۔

اس لیے مسلمان کو صبح شام اور نمازوں کے بعد  ثابت شدہ اذکار کا اہتمام کرنا چاہیے اسی طرح ان کے علاوہ بھی جن مخصوص لمحات کے متعلق دعائیں ثابت ہیں ان کا بھی اہتمام کرے، زیادہ سے زیادہ قرآن مجید کی تلاوت، دہرائی اور فہمِ قرآن  کیلیے بھر پور کوشش کرے، اس سے ان شاء اللہ اجر و ثواب کے متعلق دل کی مرادیں پوری ہو جائیں گی۔

واللہ اعلم .

شرعی اذکار
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔