اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

اگر گھر کا سربراہ قربانی نہ کرے تو کیا عورت اپنی اور اہل خانہ کی طرف سے قربانی کر سکتی ہے؟

02-09-2016

سوال 175748

سوال: اگر گھر کا سربراہ بلا وجہ عید کے موقع پر قربانی نہ کرے تو کیا اس کی اہلیہ کسی اور شخص کو قربانی خرید کر اپنے گھر والوں کی طرف سے ذبح کرنے کا کہہ سکتی ہے؟اور کیا ایسا کرنے سے قربانی ہو جائے گی؟ مجھے امید ہے کہ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں گے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

عید کے موقع  پر قربانی کرنا  ایک عبادت ہے اور شریعت نے اس کی جانب رغبت بھی دلائی ہے، نیز اس کیلیے مرد و خواتین کے درمیان کوئی فرق روا نہیں رکھا، اسی طرح شادی شدہ اور غیر شادی شدہ میں بھی کوئی فرق نہیں ہے؛ کیونکہ قربانی سے متعلق جتنی بھی نصوص ہیں ان میں اس قسم کی کوئی تخصیص یا قید نہیں ہے بلکہ وہ تمام کی تمام نصوص عام ہیں جن میں مرد و خواتین یکساں شامل ہوتے ہیں۔

چنانچہ اگر کسی خاتون کے پاس مالی حیثیت ہے تو اس کیلیے  اپنے مال سے اپنی اور اہل خانہ کی طرف سے  قربانی کرنا  جائز ہے، خصوصاً ایسی صورت میں جب گھر  کا سربراہ قربانی کرنے سے گریزاں ہوں۔

ابن حزم رحمہ اللہ "المحلى" (6/37) میں کہتے ہیں:
"مسافر بھی اسی طرح قربانی کر سکتا ہے جیسے مقیم کر سکتا ہے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، اسی طرح عورت بھی قربانی کر سکتی ہے ؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَافْعَلُوا الْخَيْرَ)
ترجمہ: نیکی کے کام کرو۔
 اور قربانی بھی نیکی ہے ، نیز جن افراد کا ذکر ہم نے پہلے کیا ہے ان سب کو نیکیوں کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ انہیں نیکیاں کرنے کی ترغیب بھی دلائی گئی ہے، اسی طرح ہم نے قربانی سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جتنے فرامین بھی ذکر کیے ہیں ان میں سے کسی میں بھی قربانی کی نسبت  دیہاتی، شہری، مسافر، مقیم، مرد یا عورت  کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے، لہذا قربانی کو ان میں سے کسی کے ساتھ خاص کرنا باطل ہے جائز نہیں ہے" انتہی مختصراً

اسی طرح  " الموسوعة الفقهية " (5/81) میں ہے کہ:
"قربانی کے واجب یا مسنون ہونے کیلیے مرد ہونا شرط نہیں ہے؛ لہذا جس طرح قربانی مردوں پر واجب ہے اسی طرح خواتین پر بھی واجب ہے؛ کیونکہ قربانی واجب یا مسنون ہونے  کے تمام دلائل  میں مرد و خواتین  یکساں شامل ہیں" انتہی مختصراً

اس بنا پر : اگر گھر کا سربراہ قربانی کرنے سے گریزاں ہے تو بیوی خود بھی قربانی کر سکتی ہے، یا کسی شخص کی ذمہ داری لگا دے جو اس کی طرف سے قربانی خرید کر ذبح کر دے، چاہے خاوند کو اس کا علم ہو یا نہ ہو، چاہے خاوند اس چیز کی اجازت دے یا نہ دے؛ کیونکہ قربانی کرنا مرد و خواتین سب کیلیے یکساں سنت ہے، لہذا اگر خاوند قربانی نہ کرے تو بیوی یہ کام کر سکتی ہے۔

آپ ﷺ کا فرمان ہے: (لوگو! بیشک  ہر گھرانے پر ہر سال  قربانی ہے)
احمد (17216) ابو داود: (2788) نیز البانی نے اسے "صحیح ابو داود" میں حسن کہا ہے۔

اسی طرح خطیب شربینی رحمہ اللہ "العدۃ" کے مؤلف سے نقل کر تے ہیں کہ:
"اگر گھر کے افراد  کئی ہوں تو قربانی کرنا سنت کفایہ ہے ، چنانچہ پورے گھر میں سے کوئی ایک فرد بھی قربانی کر لے تو سب کی طرف سے  ہو جائے گی، بصورتِ دیگر سنتِ عین ہو گی" انتہی
"مغنی المحتاج"(6/123)

واللہ اعلم.

قربانی
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔