اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

الكحل اور عيسائى تہواروں كے لوازمات اور ٹوتھ پيسٹ وغيرہ كى تجارت

20-12-2008

سوال 14355

ميں نے پرچون اشياء كى فروخت كا ايك پراجيكٹ شروع كيا ہے، اور دينى چھٹيوں كے اوقات ميں ميں ان تہواروں كے متعلقہ سامان كى فروخت كرتا ہوں مثلا: كرسمس، اور يوم ام ، اور ايسٹر ڈے كے تہواروں كى زيب و زينت كى اشياء .. فروخت كرتا ہوں كيا يہ حرام ہيں؟
ميرى ايك سوپر ماركيٹ تھى جسے ميں نے فروخت كر ديا ہے، اور اب ميں اس كام كو دوبارہ نہيں كرنا چاہتا كيونكہ ميں بيرہ اور خنزير كا گوشت فروخت كيا كرتا تھا..
ميرے بھائى ميرى گزارش ہے كہ آپ ان اشياء ميں ميرى حمايت نہ كريں جو ميں فروخت كرتا رہا ہوں، برائے مہربانى مجھے اس كا حكم بھى بتائيں، وہ اشياء يہ ہيں: كيپ، اور سرامكس سے بنى ہوئى بعض شكليں اور مجسمے، سگرٹ، لاٹرى، اور بعض دواياں جن ميں الكحل پائى جاتى ہے، يا گولياں، اور حرام اشياء پر مشتمل ٹافياں وغيرہ، ٹوتھ پيسٹ، ہم مسلمانوں پر ان ميں سے بعض اشياء كا استعمال حرام ہے، ليكن كيا ميں يہ سامان صرف كفار كو فروخت كر سكتا ہوں كيونكہ وہى ميرے گاہك ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بيرہ اور خنزير كا گوشت بيچنا ترك كر كے آپ نے بہت اچھا اور بہتر كام كيا ہے، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كى حلال كمائى اور روزى ميں بركت پيدا فرمائے، اور آپ كو بہتر نعم البدل سے نوازے.

آپ نے جس كے متعلق سوال كيا ہے اس كى تفصيل ذيل ميں دى جاتى ہے:

1 - مسلمان كے ليے كفار كے تہواروں ميں شركت كرنا جائز نہيں، مثلا كرسمس، اور ايسٹر ڈے وغيرہ، اور ان تہواروں ميں ممد و معاون ہونے والى اشياء كى فروخت بھى ناجائز ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كيا كرو، اور برائى و گناہ اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون نہ كرو.

اور اسى طرح بدعتى تہواروں ميں بھى استعمال ہونے والى اشياء كى فروخت جائز نہيں ہے مثلا مثلا عيد الام، اس كا جشن منانے ميں ممدو معاون ہونے والى اشياء كى فروخت ناجائز ہے.

2 - يادگارى كيپ كا استعمال اور اس كى فروخت اصلا جائز ہے، ليكن جب فروخت كرنے والے كو يہ علم ہو يا اس كا غالب گمان ہو كہ اسے كسى حرام كام اورغرض ميں استعمال كيا جائے گا تو پھر اس كى فروخت جائز نہيں.

اس ميں قاعدہ اوراصول يہ ہے جيسا كہ شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كا كہنا ہے:

( ہر وہ لباس جس كے بارہ ميں غالب گمان يہ ہو كہ اس سے برائى اور معصيت ميں تعاون اور مدد لى جائے گى، تو اس كى فروخت جائز نہيں اور نہ ہى ايسے شخص كے ليے وہ لباس سلائى كرنا جائز ہے جو اس سے ظلم اور معصيت ميں تعاون حاصل كرے )

ديكھيں: شرح العمدۃ ( 4 / 386 ).

اور يہ قاعدہ اور حكم صرف لباس كے ساتھ ہى خاص نہيں بلكہ ہر خريدوفروخت كى چيز كے ليے عام ہے.

3 - سگرٹ اور لاٹرى بيچنا حرام ہے، اور ہر وہ سامان اور چيز جس كے بارہ ميں علم ہو كہ يہ حرام كام پر مشتمل ہے اس كى فروخت بھى حرام ہے.

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

( سگرٹ اور تمباكو اور حرام كردہ اشياء كى تجارت كرنا حلال نہيں، كيونكہ يہ خبائث اور گندى اشياء ميں شامل ہيں، اور اس ليے بھى كہ اس ميں جسمانى، روحانى، اور مالى نقصان پايا جاتا ہے )

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 55 ).

اور لاٹرى تو بعينہ جوا اور قماربازى ہے، شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

( سائل نے جو صورت ذكر كى كہ: وہ ٹكٹ كى خريدارى كرے اور پھر ہو سكتا ہے اس كے نصيب ميں ہو جيسا وہ كہہ رہا ہے تو اسے بہت زيادہ نفع حاصل ہو جائے، يہ صورت جوئے اور قمار بازى ميں داخل ہے جس كے بارہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو! بات يہى ہے كہ شراب اور جوا اور تھان اور پانسے كے تير گندى باتيں اور شيطانى كام ہيں، لہذا اس سے الگ تھلگ رہو، ہو سكتا ہے تم كامياب ہو جاؤ، شيطان تو يہى چاہتا ہے كہ تمہيں شراب اور قماربازى و جوا كے بارہ ميں تمہارے اندر دشمنى اور عناد وبغص ڈال دے، اور تمہيں اللہ تعالى كے ذكر اور نماز سے روك دے، سو تم اب بھى باز آجاؤ، اور اللہ تعالى اور اس كے رسول كى اطاعت كرتے رہو، اور احتياط ركھو، اگر اعراض كرو گے تو يہ جان لو كہ ہمارے رسول كے ذمہ صرف صاف صاف پہنچا دينا ہے المائدۃ ( 90 - 92 )

لہذا يہ جوا اور قماربازى - اور ہر معاملہ جس ميں چٹى اور نفع دونوں كا انديشہ ہو - ہے، اس معاملہ ميں پڑنے والے شخص كو علم نہيں كہ آيا وہ نقصان اٹھائے گا يا اسے فائدہ حاصل ہو گا، سب حرام ہے بلكہ يہ كبيرہ گناہوں ميں سے ہے، جب انسان يہ ديكھے كہ اللہ تعالى نے اسے بتوں كي عبادت اور شراب اور فال كے تيروں كے ساتھ ملايا ہے تو اس كى قباحت اس پر پوشيدہ نہيں رہتى )

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 441 ).

اور يہ بات اپنے علم ميں ركھيں كہ جس چيز كا استعمال اور تناول حرام ہے اسے فروخت كرنا بھى حرام ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اللہ تعالى يہوديوں پر لعنت كرے ان پر چربى حرام كى گئى تو انہوں نے اسے فروخت كركے اس كى قيمت كھالى، اور اللہ تعالى نے جب كسى چيز كو كھانا حرام كيا تو اس كى قيمت بھى حرام كردي"

مسند احمد، سنن ابو داود حديث نمبر ( 3026 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 5107 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

4 - ذى روح اشياء چاہے وہ انسان ہوں يا پرندے اور حيوان ان كى تصوير جائز نہيں، اور مجسمے كى شكل ميں ہونے كى حرمت تو اور بھى زيادہ شديد ہے.

لہذا اس بنا پر سرامكس يا كسى اور چيز سے بنى ہوئى تصويريں فروخت كرنا جائز نہيں، جبكہ وہ ان صفات كى مالك ہوں، ليكن اگر يہ تصاوير ذى روح اشياء كے علاوہ مثلا پہاڑوں وغيرہ يا قدرتى مناظر كى ہوں تو انہيں بنانا اور فروخت كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے كہ:

( ذى روح كى تصاوير فروخت كرنا حرام ہيں، اس ليے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح حديث ميں يہ فرمان ثابت ہے:

" بلا شبہ اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے شراب اور مردار، اور خنزير، اور بتوں كى فروخت حرام قرار دي ہے" متفق عليہ

اور اس ليے بھى كہ يہ ان تصاوير والوں كے غلو كا سبب بن سكتے ہيں، جيسا كہ نوح عليہ السلام كى قوم ميں ہوا تھا.... اور اس كے علاوہ بھى بہت سى نصوص ہيں جو ذى روح كى تصوير كشى اور تصاوير كے استعمال ميں وارد ہيں ).

5 - اور وہ دوائياں جو الكل پر مشتمل ہيں اگر تو ان ميں پائى جانے والى الكحل كى نسبت بہت زيادہ ہو كہ اس دوائى كى زيادہ مقدار كے استعمال سے انسان كو نشہ ہو جائے تو يہ دوا خمر ہو گى اور اس كا استعمال اور اسے فروخت كرنا حرام ہے، ليكن اگر الكحل كى نسبت بہت كم ہو كہ انسان جتنى بھى دوائى پى لے اسے نشہ نہيں آتا تو پھر يہ دوائى استعمال كرنا اور اسے فروخت كرنا جائز اور مباح ہے.

مستقل فتوى كميٹى نے الكحل پر مشتمل عطر اور پرفيومز كے بارہ ميں يہ فتوى جارى كيا ہے:

( جب الكحل كى مقدار اتنى زيادہ ہو كہ اس عطر اور پرفيوم كى زيادہ مقدار پينے سے نشہ ہو جائے، تو پھر ان عطور كو پينا حرام ہے، اور اس كى تجارت بھى حرام ہے، اور اسى طرح اس كا ہر قسم كا استعمال اور نفع حاصل كرنا بھى حرام ہو گا؛ اس ليے كہ يہ خمر ہے چاہے وہ كم ہو يا زيادہ، اور اگر الكحل ميں ملا ہوا عطر زيادہ پينے سے نشہ كے درجہ تك نہيں پہنچتا تو اس كا استعمال اور اس كى تجارت جائز ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كى زيادہ مقدار نشہ كرے اس كى تھوڑى مقدار بھى حرام ہے" )

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 54 ).

6 - جس چيز كا مسلمان شخص كے ليے استعمال حرام ہو تو وہ چيز نہ تو مسلمان شخص كو فروخت كى جاسكتى ہے اور نہ ہى كسى كافر كو فروخت كرنى جائز ہے؛ كيونكہ جمہور علماء كے قول كے مطابق كافر شريعت كى فروعات كے مخاطب ہيں، لہذا مسلمان شخص پر حرام كردہ چيز كافر كے ليے بھى حرام ہے، لہذا انہيں شراب با خنزير فروخت كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس كے علاوہ كوئى اور چيز جس كى حرمت ہمارے دين ميں ثابت ہے ان كفار كو فروخت كرنى جائز ہے، اگرچہ ان كى شريعت ميں اس كى اباحت فرض بھى كر لى جائے، كيونكہ شريعت اسلاميہ اپنے سے پہلے آنے والى شريعتوں كى محافظ اور ناسخ ہے.

مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:

سوال:

شراب اور خنزير اگر مسلمان شخص كو فروخت نہ كي جائے تو اس كى تجارت كرنى جائز ہے؟

جواب:

كھانے پينے اور اس كے علاوہ دوسرى اشياء جنہيں اللہ تعالى نے حرام قرار ديا ہے كى تجارت كرنا جائز نہيں مثلا: شراب، خنزير، اگرچہ يہ تجارت كفار كے ساتھ ہى ہو؛ كيونكہ صحيح حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہےكہ:

" بلاشبہ جب اللہ تعالى نے كسى چيز كو حرام كيا تو اس كى قيمت بھى حرام كردى"

مسند احمد حديث نمبر ( 2564 ) اور صحيح الجامع حديث نمبر ( 5107 ).

اور اس ليے بھى كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے شراب اور شراب نوشى كرنےوالے، اور اسے فروخت كرنے والے اور خريدنے والے، اور اسے اٹھا كر لے جانے والے، اور جس كى طرف ليجائى جارہى ہے، اور اس كى قيمت كھانے والے، اور اسے بنانے والے اور بنوانے والے پر لعنت فرمائى"

جامع ترمذى حديث نمبر ( 1295 ) صحيح ترمذى حديث نمبر ( 1041 ). انتہى

واللہ اعلم .

حرام خرید و فروخت
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔