اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

فرمان بارى تعالى: { اور تم اپنے ہاتھوں ہلاكت ميں مت پڑو } كى تفسير

25-11-2008

سوال 117275

برائے مہربانى كيا آپ درج ذيل فرمان بارى تعالى كا معنى بيان كر سكتے ہيں ؟
اور اللہ كى راہ ميں خرچ كرو، اور اپنے ہاتھوں ہلاكت ميں نہ پڑو، اور سلوك و احسان كرو، اللہ تعالى احسان كرنے والوں كو پسند كرتا ہے البقرۃ ( 195 ).
ميں حيران ہوں كہ فتوى نمبر ( 46807 ) ميں پڑھا ہے كہ اس سے مراد اپنے آپ كو ہلاكت ميں ڈالنے سے مراد اللہ كى راہ ميں خرچ نہ كرنا ہے، پھر ميں نے ايك اور فتوى نمبر ( 21589 ) كا مطالعہ كيا جس ميں لكھا تھا كہ: اس سے جان قتل كرنا مراد ہے، يہ كہ اگر ميں اس كا معنى اچھى طرح سمجھ سكا ہوں تو پھر، برائے مہربانى اس كا جواب ديں.

جواب کا متن

الحمد للہ.

مفسرين اور فقھاء وغيرہ اہل علم متفق ہيں كہ اللہ كا فرمان:

اور تم اللہ كى راہ ميں خرچ كرو، اور اپنے ہاتھوں ہلاكت ميں مت پڑو، اور سلوك و احسان كرو يقينا اللہ تعالى احسان كرنے والوں كو پسند كرتا ہے البقرۃ ( 195 ).

يہ نفقہ كے سياق ميں وارد ہے، اور اور آيت كے سبب نزول ميں وارد ہے كہ كچھ صحابہ كرام نے ارادہ كيا كہ وہ اپنى تجارت اور مال وغيرہ كى طرف پلٹ كر اسے صحيح كريں، اور جہاد چھوڑ ديں تو اللہ سبحانہ و تعالى نے انہيں اس آيت ميں ڈرايا.

امام بخارى رحمہ اللہ نے صحيح بخارى ميں حذيفہ بن يمان رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ يہ آيت نفقہ كے بارہ ميں نازل ہوئى " انتہى

ديكھيں: صحيح بخارى حديث نمبر ( 4516 ).

اور امام ترمذى نے اسلم ابو عمران سے روايت كيا ہے وہ كہتے ہيں:

" ہم روم ميں تھے تو روميوں نے ہمارے مقابلہ ميں ايك بہت بڑى لشكر كى صف نكال كر لائے، اور مسلمانوں ميں سے ايك شخص نے روميوں كے لشكر كى اس صف پر حملہ كر ديا اور ان ميں داخل ہو گيا، تو لوگ چيخ كر كہنے لگے: سبحان اللہ! يہ تو اپنے آپ كو ہلاكت ميں ڈال رہا ہے! چنانچہ ابو ايوب انصارى رضى اللہ تعالى عنہ اٹھے اور فرمايا:

لوگو تم اس آيت كى يہ تاويل اور تفسير كر رہے ہو، بلكہ يہ آيت تو ہمارے انصار صحابہ كے متعلق نازل ہوئى، جب اللہ سبحانہ و تعالى نے اسلام كو عزت سے نوازا اور اسلام كے مددگار بہت زيادہ ہو گئے، تو ہم ميں سے كچھ صحابہ نے راز دارانہ طريقہ سے كہا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا اس كو علم نہ ہونے ديا، ہمارے مال ضائع ہو گئے ہيں، اور اب اللہ تعالى نے اسلام كو عزت سے نواز ديا ہے، اور اس كے مددگار بھى زيادہ ہو گئے ہيں، تو اگر ہم جا كر اپنا مال جو ضائع ہوا ہے اس كى اصلاح كر ليں، تو اللہ تعالى ہمارے قول كا رد كرتے ہوئے اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر يہ آيت نازل فرما دى:

اور تم اللہ كى راہ ميں خرچ كرو، اور اپنے ہاتھوں ہلاكت ميں مت پڑو .

چنانچہ مال اور تجارت كرنا اور اس كى اصلاح كرنا اور ہمارا جہاد اور جنگ كو ترك كرنا ہلاكت تھا، اس كے بعد ابو ايوب رضى اللہ تعالى عنہ جہاد ميں مشغول رہے حتى كہ وہ قسطنطينيۃ ميں دفن ہوئے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2972 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 13 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اس كے باوجود ـ متقدمين اور متاخرين ـ علماء كرام ميں سے كچھ اس پر بھى استدلال كرتے ہيں كہ اس ميں جان كو قتل كرنے اور اسے اذيت پہنچانا اور اسے كسى بھى طريقہ سے ہلاكت ميں ڈالنا مراد ہے، انہوں نے اس آيت ميں لفظ عموم اور قياس جلى كو ايك اصولى قاعدہ اور اصول كو سامنے ركھتے استدلال كيا ہے كہ " لفظ كے عموم كا اعتبار ہو گا، نا كہ خاص سبب كا "

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور اسے اس پر مقتصر كرنا ـ يعنى آيت كو اللہ كى راہ ميں خرچ كرنے كے موضوع پر ہى منحصر كر دينا ـ اس ميں نظر ہے، كيونكہ لفظ كے عموم كا اعتبار ہو گا " انتہى

ديكھيں: فتح البارى ( 8 / 185 ).

اور شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يعنى تم ايسا كچھ بھى نہ لو جس ميں تمہارى ہلاكت ہو، اور اس آيت كے معنى ميں سلف كے كئى اقوال ہيں، اور حق يہ ہے كہ لفظ كے عموم كا اعبتار ہو گا، نہ كہ خاص سبب كا، اس ليے جس ميں يہ صادق آتا ہو كہ اس ميں دين يا دنيا كے متعلق ہلاكت ہے تو وہ اس ميں داخل ہے، ابن جرير طبرى كا قول يہى ہے " انتہى

ديكھيں: فتح القدير ( 1 / 193 ).

اس پر سلف رحمہ اللہ كى كئى نوع و قسم كى تفسيريں بھى دلالت كرتى ہيں، اور براء بن عازب رضى اللہ تعالى عنہ سے وارد ہے كہ انہوں نے گناہ كرنے كے بعد اللہ كى رحمت سے نااميد ہونے والے شخص كو شمار كيا كہ اس نے اپنے ہاتھ ہلاكت كى.

اور فتح البارى ميں ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اسے ابن جرير اور ابن منذر نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے.

ديكھيں: فتح البارى ( 8 / 33 ).

اس سے واضح ہوا كہ ہمارى اس ويب سائٹ پر سابقہ دونوں جوابات ميں كوئى تناقض نہيں، جو سوال نمبر ( 46807 ) كے جواب ميں آيا ہے وہ اس آيت كے سياق اور سبب نزول كے متعلق ہے.

اور جو سوال نمبر ( 21589 ) كے جواب ميں بيان ہوا ہے وہ آيت كے الفاظ كے عموم سے استدلال ہے، اور بيان ہوا ہے كہ مطلقا اپنے ہاتھوں ہلاكت ميں پڑنا جائز نہيں، چاہے وہ كسى بھى شكل اور طريقہ كے يہ ہلاكت و اذيت ہو.

واللہ اعلم .

تفسیر قرآن اصول فقہ
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔