اسلام سوال و جواب کو عطیات دیں

"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "

جنگ ميں دھوكہ دينا اور حيلہ بازى كرنا

10-04-2007

سوال 10138

كيا اسلام جنگوں ميں دھوكہ دينے اور حيلہ كرنے كى اجازت ديتا ہے اور كيا غدارى اور خيانت بھى اسى طرح ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ سبحانہ وتعالى نے دھوكہ دہى اور غدارى كرنا حرام قرار ديا ہے اور ايسا كرنے والے كى مذمت فرمائى ہے:

ارشاد بارى تعالى ہے:

وہ لوگ جن سے آپ عہد كر چكے ہيں، پھر وہ ہر بار اپنا معاہدہ توڑ ديتے ہيں اور وہ ڈرتے ہى نہيں الانفال ( 56 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" روز قيامت ہر دھوكہ دينے والے اور غدارى كرنے والے شخص كے پاس ايك جھنڈا ہو گا جس سے وہ پہچانا جائيگا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6966 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1736 ).

اور امام بخارى نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے حديث بيان كى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس ميں چار خصلتيں پائى جائيں وہ خالص منافق ہے: جب بات كرے تو جھوٹ بولے، اور جب وعدہ كرے تو وعدہ خلافى كرے، اور جب كوئى معاہدہ اور عہد كرے تو اس توڑ دے، اور جب جھگڑا كرے تو گالى گلوچ كرے، اور جس ميں بھى ان خصلتوں ميں سے ايك خصلت پائى گئى اس ميں نفاق كى خصلت ہے، حتى كہ وہ اسے ترك كر دے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3878 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 58)

امام مالك رحمہ اللہ بيان كرتے ہيں كہ مجھے خبر پہنچى ہے كہ عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے فرمايا:

" جو قوم بھى معاہدہ توڑ ديتى ہے اللہ تعالى اس پر دشمن كو مسلط كر ديتا ہے "

موطا امام مالك باب ما جاء فى الوفاء بالعہد.

خيانت اور غدر سے اس قدر نفرت دلانے كے باوجود شريعت اسلاميہ نے ميدان جنگ ميں كاميابى كے حصول كے ليے دھوكہ دينا جائز قرار ديا ہے.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

علماء كرام كا اتفاق ہے كہ جنگ ميں كفار كو دھوكہ دينا جائز ہے، جس طرح بھى ممكن ہو سكے انہيں دھوكہ ديا جائے، ليكن اس ميں معاہدہ نہ توڑا جائے، يا پھر كسى كو امان دى ہو تو اسے توڑنا حلال نہيں.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا بھى فرمان ہے:

" جنگ دھوكہ ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3029 ) صحيح مسلم حديث نمبر( 58 )

اور دھوكہ دہى اور خديعہ كے عناصر ميں سب سے خطرناك عنصر يہ ہے كہ دشمن پر اچانك حملہ كيا جائے اور اسے تيارى كا موقع ہى نہ مل سكے، جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مكہ فتح كرنے كا ارادہ كيا تو مسلمانوں كو تيارى كرنے كا حكم ديا ليكن اپنا ارادہ كسى پر ظاہر نہيں كيا اور جب مكہ كى طرف جانے لگے اور مشركوں تك اس خبر كو روكنے كے سارے انتظامات كر ليے اور ہر طرح كى احتياط كى كہ يہ خبر مكہ كے مشركوں تك نہ پہنچے تو پھر اپنا ارادہ مسلمانوں پر ظاہر كيا.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بہت زيادہ پارٹياں روانہ كرتے اور انہيں رات كو چلنے، اور دن كو چھپ كر رہنے كى وصيت فرماتے تا كہ دشمن كو اچانك دبوچا جا سكے.

جنگ اور معركہ ميں دھوكہ جائز ہونے كے باوجود ہم يہ كہتے ہيں كہ: جنگى چالوں ميں يہ دھوكہ اور توريہ اور حيلے استعمال كرنے ميں دين اسلام نے معاہدہ پورا كرنے كا جو عاليشان التزام كرنے كا كہا ہے اس كى كوئى مثال نہيں ملتى، ذيل ميں ہم اس كى چند ايك مثاليں پيش كرتے ہيں:

عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے اپنے ايك لشكر روانہ كيا تو اس كے سپہ سالار كو خط لكھا:

" مجھ تك يہ خبر پہنچى ہے كہ تم ميں سے كچھ لوگ غير عربى كافر كا پيچھا كرتے ہيں، اور جب وہ پہاڑوں ميں چل كر تھكنے كے بعد رك جاتا ہے تو اسے كہتے ہيں: ڈرو نہيں، اور جب اسے پكڑ ليتا ہے تو اسے قتل كر ديتا ہے، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے مجھے اگر پتہ چلا كہ كسى نے ايسا كيا ہے تو ميں اس كى گردن اڑا دونگا "

اور ابو مسلمہ بيان كرتے ہيں كہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا:

" اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے، اگر تم ميں سے كسى ايك نے مشرك كو ديكھ كر اپنى انگلى كے ساتھ آسمان كى طرف اشارہ كيا اور وہ مشرك اس پر اس كے پاس چلا آيا تو پھر اس نے اس مشرك كو قتل كر ديا تو ميں اس كے بدلے ميں اسے قتل كر دونگا "

چنانچہ اسلام نے معاہدہ توڑنا حرام كيا ہے، اور يہ غدر اور معاہدہ توڑنا جنگ ميں حيلہ بازى اور جائز دھوكہ ميں شامل نہيں ہوتا.

تو اس طرح شريعت اسلاميہ نے فرق كيا ہے كہ حيلہ كے كونسے وسائل جائز ہيں، اور معاہدہ توڑنے اور غدر ميں كيا چيز شامل ہوتى ہے.

ديكھيں: العلاقات الخارجيۃ فى دولۃ الخلافۃ صفحہ نمبر ( 197 ).

واللہ اعلم .

جہاد اور ہجرت
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ میں دکھائیں۔