ہفتہ 11 شوال 1445 - 20 اپریل 2024
اردو

اگر كوئى شخص وضوء اور تيمم كرنے سے عاجز ہو تو نماز كيسے ادا كرے ؟

5430

تاریخ اشاعت : 22-09-2006

مشاہدات : 6436

سوال

ميں مسلمان ہوں اور معذور ہونے كى بنا پر وہيل چئر استعمال كرتا ہوں ميرا وضوء كے متعلق سوال ہے:
ميں ہاتھ كے ساتھ كوئى چيز پكڑ نہيں سكتا، ہر صبح ميرے پاس ايك شخص مجھے غسل وغيرہ كروانے آتا ہے، كيا باقى سارا دن بھى مجھے يہى كافى ہے ؟
ميں تيمم كرنے كى كوشش كرتا ہوں ليكن اپنے پورے چہرے پر ہاتھ نہيں پھير سكتا، اور تيمم كرنے كے ليے مٹى پر ہاتھ ركھنا بھى بہت مشكل ہے، برائے مہربانى كوئى نصيحت فرمائيں.

جواب کا متن

الحمد للہ.

1 - اسلام كى آسانى اور لوگوں پر سہولت ميں يہ بات شامل ہے كہ شريعت اسلاميہ لوگوں كو ايسا عمل كرنے كا حكم نہيں ديتا جو ان كى طاقت سے باہر ہو.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اللہ تعالى كسى نفس كو بھى اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا، جو نيكى كرے وہ اسى كے ليے ہے،، اور جو برائى كرے اس كا وبال بھى اسى پر ہے البقرۃ ( 286 ).

اللہ سبحانہ وتعالى نے مسلمانوں كے ليے وضوء فرض كيا، اور اسے ان كے ليے پسند فرمايا ہے، ليكن ان ميں ضعف ہونے كى بنا پر اللہ تعالى نے بعض افراد كو تيمم كرنے كى رخصت دى اور طہارت كے ليے پانى كے بدلے مٹى كو استعمال كرنا مشروع كيا.

اور اگر تيمم ميں بھى اس كے ليے مشقت ہو بغير تيمم اور وضوء كيے ہى نماز ادا كرنى ائز ہے، يہ بالكل اسى طرح ہے كہ اگر كسى شخص كو ستر ڈھانپنے كے ليے كپڑا نہ ملے تو وہ ننگے بدن ہى نماز ادا كر سكتا ہے.

جب غسل يا وضوء كرنے كے ليے كوئى شخص آپ كا تعاون كرے تو يہ بہتر ہے، اگر سارا دن آپ كو حدث اكبر يا اصغر نہ ہو تو يہى وضوء اور طہارت كافى ہے.

اور اگر آپ خود تيمم كريں يا پھر كوئى دوسرا آپ كو تيمم كروائے تو آپ كے ليے صرف اتنا ہى كافى ہے كہ آپ مٹى پر ہاتھ پھيريں، اور حسب استطاعت اپنے چہرے پر ہاتھ پھير ليں.

اور مشقت اور بيمارى كى بنا پر ـ آپ كو يہ حق ہے كہ اگر آپ كے ليے دوسرے وقت ميں طہارت اور وضوء كرنا ميسر نہ ہو تو آپ دو نمازيں جمع كر سكتے ہيں.

اور اگر نہ تو وضوء كرنا ہى ميسر ہو اور نہ ہى تيمم كرنا، اور نماز كا وقت بھى نكل رہا ہو تو آپ كے ليے نماز ادا كرنا فرض ہے، چاہے پانى اور مٹى سے طہارت كيے بغير ہى ادا كريں.

اگر كوئى شخص طہارت كرنے كى استطاعت نہ ركھتا ہو تو اس كے ليے نماز ادا كرنے كى دليل درج ذيل ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" انہوں نے اسماء رضى اللہ تعالى عنہا سے ايك ہار عاريتا ليا، تو وہ ہار گم گيا، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك شخص كو تلاش كرنے بھيجا اور اس نے تلاش تو كر ليا اور وہيں نماز كا وقت ہو گيا، اور ان كے پاس پانى نہ تھا، چنانچہ انہوں نے اس كى شكايت رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كى، تو اللہ سبحانہ وتعالى نے تيمم والى آيت نازل فرمادى.

تو اسيد بن حضير رضى اللہ تعالى عنہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كو كہنے لگے:

اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے، اللہ كى قسم جب بھى تمہيں كوئى ايسا معاملہ پيش آيا جسے تم ناپسند كرتى تھيں، مگر اللہ تعالى نے اس ميں تيرے اور مسلمانوں كے ليے خير اور بھلائى ركھ دى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 329 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 367 ) يہ الفاظ بخارى شريف كے ہيں.

اور طبرانى اور ابو عوانہ كى حديث ميں يہ صراحت ہے كہ انہوں نے بغير وضوء ہى نماز ادا كر لى.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسيد بن حضير اور ان كے ساتھ كچھ دوسرے لوگوں كو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا گمشدہ ہار تلاش كرنے بھيجا تو نماز كا وقت ہو گيا، اور انہوں نے بغير وضوء ہى نماز ادا كر لى، اور جب وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس واپس آئے تو انہوں نے اس كى شكايت كى، چنانچہ اللہ تعالى نے تيمم والى آيت نازل فرما دى "

اور نفيلى نے يہ الفاظ زيادہ كيے ہيں:

" اسيد بن حضير رضى اللہ تعالى كہنے لگے: اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے، اللہ كى قسم جب بھى كوئى ايسا معاملہ پيش آيا جو آپ ناپسند كرتى تھيں، تو اللہ تعالى نے اس ميں مسلمانوں اور آپ كے ليے نكلنے كى راہ بنا دى "

مسند ابو عوانۃ حديث نمبر ( 873 ) الطبرانى حديث نمبر ( 131 ).

اس بات كى دليل ہے كہ پانى نہ ہونے كى صورت ميں ـ تيمم سے قبل اكيلا پانى ہے طہارت كرنے كا ذريعہ تھى ـ بغير وضوء ہى نماز ادا كرنا مباح ہے چنانچہ جب مٹى بھى نہ ملے جو كہ پانى سے كم درجہ كى ہے تو بالاولى نماز ادا كرنى جائز ہو گى.

اسى سے يہ بھى استدلال كيا جاتا ہے كہ: طہارت كے ليے كوئى چيز نہ ملنے كى صورت ميں چاہے وہ موجود ہى نہ ہو، يا پھر اسے لانے كى استطاعت اور قدرت نہ ہو، يا پھر موجود تو ہو ليكن اس كے استعمال كى استطاعت اور طاقت نہ ہو ان سب صورتوں ميں بغير طہارت كيے ہى نماز ادا كرنا جائز ہے.

امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے اس حديث پر درج ذيل باب باندھا ہے:

" باب اذا لم يجد ماء و لا ترابا "

پانى اور مٹى نہ ملنے كے متعلق باب.

ابن رشيد كہتے ہيں:

گويا كہ مصنف نے تيمم كا مشروع نہ ہونے كو تيمم مشروع ہونے كے بعد مٹى نہ ملنے كى صورت پر ركھا ہے، گويا وہ يہ كہنا چاہتے ہيں كہ: طہارت والى چيز ـ جو كہ اس وقت صرف پانى تھى ـ نہ ہونے كا حكم ہمارے اس حكم كى طرح ہى ہے كہ طہارت والى دونوں چيزيں مٹى اور پانى نہ ہوں تو يہى حكم ہے.

اس سے ترجمۃ الباب سے حديث كى مناسبت ظاہر ہوتى ہے، كيونكہ حديث ميں يہى نہيں كہ ان كو مٹى بھى نہ ملى، بلكہ يہ ہے كہ انہيں پانى نہ ملا، اس ميں يہ دليل پائى جاتى ہے كہ طہارت والى دونوں اشياء نہ ملنے كى صورت ميں نماز كى ادائيگى واجب ہے.

اور وجہ دلالت يہ ہے كہ صحابہ كرام نے اسے واجب سمجھتے ہوئے نماز ادا كى، اور اگر اس وقت نماز ادا كرنا ہوتى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان كے اس فعل پر انكار ضرور كرتے.

امام شافعى، امام احمد، اور جمہور محدثين اور امام مالك كے ا كثر اصحاب كا يہى كہنا ہے "

ديكھيں: فتح البارى ( 1 / 440 ).

ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

مٹى نہ ملنے كى حالت بھى اس كى عدم مشروعيت كى حالت جيسى ہى ہے، اس ميں كوئى فرق نہيں، كيونكہ صحابہ كرام نے تيمم مشروع نہ ہونے كى بنا پر بغير تيمم كيے ہى نماز ادا كى تھى، تو پھر اگر كوئى شخص تيمم كرنے كے ليے كوئى چيز نہ ملنے كى صورت ميں بغير تيمم كيے نماز ادا كر لے تو اس كا حكم بھى ان جيسا ہى ہو گا.

تيمم كى عدم مشروعيت اور تيمم كرنے كے ليے مٹى نہ ملنے ميں كيا فرق ہے، چنانچہ قياس اور سنت كا تقاضہ يہى ہے كہ: اگر كسى كو ( مٹى ) نہ ملے تو وہ حسب حالت نماز ادا كرے، كيونكہ اللہ تعالى كسى بھى نفس كو اس كى استطاعت اور وسعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتا، اور وہ نماز لوٹائے گا بھى نہيں كيونكہ اس وہى كام كيا جس كا اسے حكم ديا گيا تھا.

چنانچہ اس پر نماز كا اعادہ نہيں، بالكل اس شخص كى طرح جس طرح اگر كوئى شخص قيام كرنے، اور قبلہ رخ ہونے، اور سترہ، اور قرآت كرنے سے عاجز ہو، قياس اور نص كا موجب يہى ہے "

ديكھيں: حاشيۃ ابن القيم على تھذيب سنن ابى داود ( 1 / 61 ).

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اور اس ليے بھى كہ يہ نماز كى شرائط ميں شامل ہے، چنانچہ باقى سب شروط اور اركان كى طرح عاجز ہونے كى صورت ميں يہ بھى ساقط ہو گى، اور اس ليے بھى كہ اس نے اپنے ذمہ فرض اپنى حسب حالت ادا كيا ہے، چنانچہ اس كے ليے اعادہ كرنا لازم نہيں، جس طرح كہ ستر ڈھانپنے سے عاجز شخص اگر بے لباس نماز ادا كرے، اور استقبال قبلہ سے عاجز شخص كسى اور طرف رخ كر كے نماز ادا كر لے، اور قيام سے عاجز شخص بيٹھ كر نماز ادا كر لے "

ديكھيں: المغنى ( 1 / 157 ).

اور امام شوكانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

قولہ: " چنانچہ انہوں نے بغير وضوء ہى نماز ادا كر لى "

محققين كى ايك جماعت نے جن ميں مصنف بھى شامل ہيں نے پانى اور مٹى نہ ملنے كى صورت ميں نماز ادا كرنے كے وجوب پر استدلال كيا ہے، حالانكہ حديث ميں يہ نہيں كہ انہيں مٹى نہيں ملى تھى، بلكہ حديث ميں تو يہ ہے كہ انہيں صرف پانى نہيں ملا تھا.

ليكن اس وقت پانى نہ ملنا پانى اور مٹى نہ ہونے كى طرح ہى ہے، كيونكہ اس وقت پانى كے علاوہ كوئى چيز طہارت كے ليے نہ تھى.

اس سے وجہ استدلال يہ ہے كہ: انہوں اسے واجب سمجھتے ہوئے نماز ادا كى تھى، اور اگر اس وقت نماز ادا كرنا ممنوع ہوتى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس پر انكار ضرور كرتے.

امام شافعى، امام احمد، اور جمہور محدثين اور امام مالك كے اكثر اصحاب كا يہى كہنا ہے "

ديكھيں: نيل الاوطار ( 1 / 337 ).

اس مسئلہ ميں علماء كرام كى كلام يہى ہے، اور راجح بھى يہى ہے.

چنانچہ اگر آپ كو كوئى شخص وضوء اور تيمم نہ كروائے تو اسے عدم استطاعت ميں شمار كرتے ہوئے تو آپ كا حكم بھى پانى اور مٹى نہ ملنے والے شخص جيسا ہى ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب