منگل 7 شوال 1445 - 16 اپریل 2024
اردو

منگیتر کے سامنے قسم اٹھائی کہ اسے کبھی نہیں چھوڑے گی، پھر منگنی بھی توڑ دی

سوال

میری منگنی ہو چکی تھی، اور جس وقت میری ملاقات اپنے منگیتر سے ہوئی تو میں نے قرآن مجید پر ہاتھ رکھ قسم اٹھائی کہ جب تک مجھے تم نہیں چھوڑو گے میں آپ کو کبھی نہیں چھوڑوں گی، اس بات کو عرصہ ہو گیا اور ہمارے مابین متعدد بار ان بن ہوئی، اور پھر ہم نے کئی بار صلح کی کوشش بھی کی لیکن میں نے خود ہی انکار کر دیا، حالانکہ میں نے ہی اس کو نہ چھوڑنے کی قسم اٹھائی تھی، تو اب میں کیا کروں؟ تو کیا اللہ تعالی میری غلطی معاف فرما دے گا؟

جواب کا خلاصہ

1-جس وقت آپ نے اللہ کی قسم اٹھائی کہ آپ اپنے منگیتر کو تبھی چھوڑیں گی جب وہ آپ کو چھوڑے گا، پھر قبل ازیں کہ وہ آپ کو چھوڑے آپ نے ہی اسی کو چھوڑ دیا تو آپ نے اپنی قسم توڑ دی ہے، اور آپ کو قسم کا کفارہ دینا ہو گا۔ 2- منگنی پختہ عہد اور وعدہ نہیں ہوتا، نہ ہی انسان کے منگنی توڑنے پر کوئی گناہ ہوتا ہے چاہے یہ منگنی مرد توڑے یا عورت، البتہ اتنا ضرور ہے کہ بغیر کسی وجہ کے منگنی توڑنا مکروہ ہے، اس بارے میں مزید جاننے کے لیے تفصیلی جواب ملاحظہ فرمائیں۔

الحمد للہ.

اول:منگنی نہ توڑنے کی قسم اٹھائی اور پھر منگنی توڑ بھی دی

جب آپ نے یہ قسم اٹھائی کہ جب تک آپ کا منگیتر آپ کو نہیں چھوڑے گا آپ اسے نہیں چھوڑیں گی، اور پھر منگیتر کے چھوڑنے سے قبل ہی آپ نے اسے چھوڑ دیا تو آپ نے اپنی قسم توڑی دی اور آپ پر قسم کا کفارہ ہو گا، جو کہ غلام آزاد کرنا، یا دس مساکین کو کھانا کھلانا، یا انہیں لباس مہیا کرنا ہے، اور اگر کسی کے پاس ان کاموں کو کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو تین دن کے روزے رکھنے ہوں گے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 لا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الْأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ 
 ترجمہ: اللہ تمہاری لغو قسموں پر تو گرفت نہیں کرے گا لیکن جو قسمیں تم سچے دل سے کھاتے ہو ان پر ضرور مواخذہ کرے گا ( اگر تم ایسی قسم توڑ دو تو) اس کا کفارہ دس مسکینوں کا اوسط درجے کا کھانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا ان کو لباس مہیا کریں، یا ایک غلام کو آزاد کرنا ہے اور جسے میسر نہ ہوں وہ تین دن کے روزے رکھے یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم اٹھا کر توڑ دو۔ اور (بہتر یہی ہے کہ) اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔ [المائدۃ: 89]

مساکین کو کھانا کھلانے کے لیے ہر مسکین کو ایک وقت کا کھانا کھلا دیا جائے یا ڈیڑھ کلو چاول وغیرہ دے دئیے جائیں۔

دوم:کیا منگنی توڑنا جائز ہے؟

لڑکی یا لڑکے کی جانب سے منگنی توڑنے پر کوئی گناہ ہوتا کیونکہ منگنی پختہ عہد اور وعدہ نہیں ہوتا، البتہ اتنا ضرور ہے کہ بغیر کسی وجہ کے منگنی توڑنا مکروہ ہے ۔

چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر لڑکی کو منگیتر پسند نہ ہو تو وہ بھی منگنی ختم کر سکتی ہے؛ کیونکہ نکاح تو ساری زندگی کا معاہدہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے لڑکی پر ضرر دائمی ہو جائے گا، اس لیے لڑکی کو اپنے بارے میں مکمل محتاط قدم اٹھانا چاہیے، اور اپنے فیصلے پر مکمل غور و فکر کرے۔

لیکن اگر لڑکا اور لڑکی دونوں ہی بغیر کسی وجہ کے منگنی توڑ دیں تو یہ مکروہ عمل ہے؛ کیونکہ اس میں وعدے کی خلاف ورزی بھی ہے، اور اپنی بات سے پھرنا بھی ہے۔ تاہم منگنی توڑنا حرام نہیں ہے؛ کیونکہ ابھی دونوں پر حقوق شرعی طور پر واجب ہی نہیں ہوئے تھے۔ بالکل ایسے ہی جس طرح خرید و فروخت میں کسی چیز کی قیمت لگوائی جائے تو اس پر بیچنا لازم نہیں ہوتا۔" ختم شد
"المغني" (7/ 146)

اسی طرح شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"شیخ مکرم !آپ کی نگاہ میں شریعت کا کیا حکم ہے کہ ایک نوجوان نے ایک لڑکی سے منگنی کی اور منگنی تقریباً دو سال تک قائم رہی، لیکن لڑکے کو اپنے خاندانی مسائل کی وجہ سے دور ہونا پڑا ، تو اس کا کیا حکم ہے، اللہ تعالی آپ کو اجر سے نوازے۔"

تو انہوں نے جواب میں فرمایا:
"اگر محض منگنی ہی ہوئی تھی تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ منگنی کے بعد شادی کا ارادہ ترک کر دے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، چاہے منگنی ایک سال کے بعد توڑے یا کم یا زیادہ عرصے میں توڑے۔ منگنی کرنے کے بعد محسوس یہ ہوا کہ شادی نہ کرنے میں بہتری ہے، یا لڑکی آغاز میں تو راضی ہو گئی لیکن بعد میں اس نے انکار کر دیا تو -الحمد للہ-اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ جب تک نکاح نہیں ہو جاتا دونوں کو مکمل اختیار ہے۔" ختم شد
"فتاوى نور على الدرب" (20/ 148)

لہذا آپ کے لیے منگنی قائم رکھنا لازم نہیں ہے، نہ ہی آپ پر لازم ہے کہ اپنے منگیتر سے رجوع کریں، آپ صرف اپنی قسم کا کفارہ دے دیں۔

اللہ کی قسم اٹھاتے ہوئے مصحف پر ہاتھ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس عمل سے قسم میں مزید تاکید پیدا ہو جاتی ہے، تاہم اس سے کوئی الگ اور نیا حکم ثابت نہیں ہوتا۔

نیز قرآن کریم کی بطور کلام الہی قسم اٹھانا جائز ہے؛ کیونکہ کلام الہی اللہ تعالی کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (203252 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

یہاں یہ بات بھی ہم واضح کرتے جائیں کہ منگیتر آپس میں اجنبی ہوتے ہیں، دونوں کے درمیان خلوت جائز نہیں ہے، نہ ہی ہاتھ سے چھونا جائز ہے، نہ ہی اسے دیکھنا جائز ہے، البتہ شرعی طور پر ایک دفعہ منگیتر کو دیکھا جا سکتا ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب