جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

ان معاصى كے سائے ميں روزے كى حفاظت كيسے كى جائے ؟

سوال

ان معاصى كے سائے ميں اپنے روزے كى حفاظت كيسے كى جائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ميرے بھائى آپ نے يہ سوال كر كے انتہائى اچھا كيا ہے يہ اس كى دليل ہے كہ آپ اللہ كى اطاعت كى حرص ركھتے ہيں اور اس وقت منتشر معاصى كے سبب اطاعت ضائع ہونے يا اس ميں كمى ہونے سے بچنا چاہتے ہيں.

ہم سب كو يہ معلوم ہونا چاہيے كہ روزہ صرف كھانا پينا چھوڑنے كا نام نہيں، بلكہ اللہ سبحانہ و تعال نے روزہ اس ليے مشروع كيا ہے كہ ہم تقوى و پرہيزگارى حاصل كر سكيں، اسى ليے حقيقى روزہ يہى ہے كہ جس روزے ميں معاصى و ترك كرتے ہوئے اجتناب كيا گيا ہو، يہ روزہ تو دل كا بھى روزہ ہے نہ كہ صرف اعضاء كا روزہ.

ہم نے جو كچھ كہا ہے اس پر سنت نبويہ بھى دلالت كرتى ہے اور اہل كى كلام ميں بھى اس كى توضيح و بيان موجود ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے غلط اور بےہودہ گوئى اور اس پر عمل كرنا نہ چھوڑا تو اللہ كو اس كے بھوكہ اور پياسا رہنے كى كوئى ضرورت نہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1804 ).

اور ايك حديث ميں ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" بہت سارے روزے دار ايسے بھى ہيں جن كا روزے ميں صرف اتنا حصہ ہے كہ انہيں بھوك اور پياس ہى حاصل ہوتى ہے، اور بہت سارے قيام كرنے والوں كو رات كى بيدارى كے علاوہ كچھ حاصل نہيں ہوتا "

مسند احمد حديث نمبر ( 8693 ) ابن حبان ( 8 / 257 ) اسے صحيح كہا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب ( 1 / 262 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور پھر صحابہ كرام تو حرص ركھا كرتے تھے كہ روزہ ان كے نفس اور اعضاء كے ليے پاكيزگى كا باعث بنے، اور انہيں معاصى و گناہوں سے محفوظ ركھے.

عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ كہا كرتے تھے:

" صرف كھانا پينا چھوڑنے كا نام روزہ نہيں بلكہ جھوٹ و باطل اور لغو باتيں چھوڑنے كا نام روزہ ہے "

اور جابر بن عبد اللہ انصارى رضى اللہ تعالى عنہما كا قول ہے:

" جب آپ روزہ ركھيں تو آپ كا كان اور آنكھ اور زبان بھى جھوٹ اور گناہوں سے روزہ ركھے، اور اپنے ملازم اور خادم كو تكليف دينا چھوڑ دو، اور آپ جس دن روزے سے ہوں تو آپ پر سكون اور وقار ہونا چاہيے، اور روزے والا دن اور عام دن كو برابر مت ركھو "

حفصہ بنت سيرين رحمہا اللہ ( تابعين ميں عالمہ خاتون تھيں ) كا قول ہے:

روزہ اس وقت تك ڈھال ہے جب تك اس روزے دار اس ميں سوراخ نہ كر دے، اور غيبت كرنا اس ڈھال ميں سوراخ كرنا ہے "

ميمون بن مہران كا قول ہے:

" سب سے آسان روزہ كھانا پينا ترك كرنا ہے.

يہ آثار اور اقوال ابن حزم رحمہ اللہ نے المحلى ( 4 / 308 ) ميں ذكر كيے ہيں.

جب ہميں يہ علم ہو چكا ہے كہ بعض اہل علم كا قول ہے كہ اگر روزے كى حالت ميں معصيت كى جائے تو روزہ باطل ہو جاتا ہے اس ميں كوئى تعجب نہيں كرنا چاہيے، اگرچہ صحيح يہى ہے كہ اس سے روزہ باطل نہيں ہوتا، ليكن بلاشك و شبہ اس سے روزے ميں نقص تو ضرور پيدا ہوتا ہے، اور پھر يہ روزے كى حقيقت كے بھى خلاف ہے.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" غيبت روزے كے ليے نقصاندہ ہے، عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا گيا ہے، اور امام اوزاعى كا بھى يہى قول ہے كہ:

" غيبت سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اور اسے اس دن كى قضاء ميں روزہ ركھنا واجب ہے "

ليكن ابن حزم رحمہ اللہ نے اس ميں افراط سے كام ليتے ہوئے كہا ہے كہ:

" چاہے قولى معصيت ہو يا فعلى عمدا اور ياد دہانى كے ساتھ معصيت كے ارتكاب سے روزہ باطل ہو جاتا ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان ہے:

اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" چنانچہ نہ تو وہ رفث كرے اور نہ ہى جہالت سے كام لے"

اور اس ليے بھى كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى لغو اور جھوٹى بات اور اس پر عمل كرنا نہ چھوڑا تو اللہ كو اس بات كى كوئى ضرورت نہيں كہ وہ بھوك اور پياس برداشت كرتا پھرے " انتہى

ديكھيں: فتح البارى ( 4 / 104 ).

اور شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" جس سے روزہ ركھنا واجب ہے، ہو سكتا ہے جب ميں يہ كہوں تو آپ لوگ تعجب كريں گے كہ جس سے روزہ ركھنا واجب ہے وہ معاصى و گناہ ہيں، انسان كے ليے ضرورى ہے كہ وہ معاصى و گناہوں سے روزہ ركھے يعنى ان سے اجتناب كرے كيونكہ روزے ميں سب سے پہلا مقصد ہى يہى ہے.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو تم پر روزے فرض كيے گئے ہيں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر روزے فرض كيے گئے تھے تا كہ تم تقوى اختيار كرو البقرۃ ( 183 ).

اللہ تعالى نے يہ نہيں كہا: تا كہ تم بھوكے رہو! يا پھر پياسے رہو! اور يہ بھى نہيں كہا: تا كہ تم اپنى بيوى سے دور رہو، نہيں بلكہ فرمايا:

تا كہ تم تقوى اختيار كرو.

اس سے علم ہوا كہ روزے كا سب سے پہلا مقصد تو يہى ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى تاكيد ان الفاظ ميں فرمائى:

" جو شخص بھى بےہودہ گوئى اور لغو باتيں اور جہالت اور ان پر عمل كرنا ترك نہيں كرتا تو اللہ تعالى كو اس كى كوئى ضرورت نہيں كہ وہ شخص اپنا كھانا اور پينا چھوڑے "

تو پھر انسان معاصى وگناہوں سے روزہ ركھے اصل اور حقيقى روزہ يہى ہے، روزہ توڑنے والى اشياء سے باز رہنا تو ظاہرى طور پر روزہ كہلاتا ہے، اللہ تعالى كى عبادت كے ليے طلوع فجر سے ليكر غروب آفتاب تك روزہ توڑنے والى اشياء سے اجتناب كرنا روزہ كہلاتا ہے.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

تو اب تم ان عورتوں سے مباشرت كروا ور اللہ تعالى نے جو كچھ تمہارے مقدر ميں لكھ ركھا ہے اسے تلاش كرو، اور كھاتے پيتے رہو حتى كہ تمہارے ليے رات كے سياہ دھاگے سے فجر كا سفيد دھاگہ ظاہر ہو جائے، اور پھر رات تك روزہ مكمل كرو البقرۃ ( 187 ).

اس روزے كو ہم ظاہرى روزے كا نام ديتے ہيں جو كہ صرف بدن كا روزہ ہے، ليكن دل كا روزہ ركھنا اولين مقصد ہے اور وہ اللہ كى معصيت و نافرمانى سے اجتناب كا روزہ ہے.

اس بنا پر جس نے صرف ظاہرى اور جسمانى روزہ تو ركھا ليكن دل كا روزہ نہ ركھا تو اس كا روزہ انتہائى ناقص ہے، ہم يہ تو نہيں كہتے كہ اس كا روزہ باطل ہے، ليكن يہ ضرور كہيں گے كہ: يہ روزہ ناقص ہے، بالكل اسى طرح جيسے ہم يہ كہتے ہيں كہ نماز كا مقصد تو خشوع و خضوع اور اللہ كے ليے عاجزى و انكسارى ہے، اور اعضاء كى نماز سے قبل دل كى نماز ہونى چاہيے.

ليكن اگر كسى انسان نے اعضاء كے ساتھ تو نماز ادا كى ليكن دل كے ساتھ نماز ادا نہيں كرتا مثلا يہ كہ اس كا دل كسى اور وادى ميں ہو تو اس كى نماز انتہائى ناقص ہے، ليكن ظاہر كے حساب سے اس كى نماز ادا ہو جائيگى.

اسى طرح جو شخص اللہ كى معصيت و نافرمانى سے روزہ نہيں ركھتا اس كا روزہ بھى انتہائى ناقص ہے؛ ليكن اس كا روزہ ادا ہو جائيگا؛ كيونكہ دنيا ميں عبادات ظاہر پر ہونگى " انتہى

ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح ( 116 ) صفحہ نمبر ( 1 ).

دوم:

علماء كرام نے صبر كو تين قسموں ميں تقسيم كيا ہے:

اطاعت و فرمانبردارى پر صبر كرنا.

معصيت و نافرمانى كرنے سے صبر كرنا.

اور اللہ تعالى كى تقدير پر صبر كرنا.

اور روزے ميں صبر كى يہ تينوں قسميں جمع كر دى گئى ہيں.

ابن رجب حنبلى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" صبر كى سب اسے افضل قسم روزہ ہے؛ كيونكہ اس ميں صبر كى تينوں قسميں جمع كر دى گئى ہيں؛ اس ليے كہ يہ روزہ اللہ سبحانہ و تعالى ك اطاعت و فرمانبردارى پر صبر كرنا ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى كى معصيت و نافرمانى سے صبر كرنا ہے كيونكہ بند اللہ تعالى كے ليے اپنى شہوت ترك كر ديا حالانكہ اس كا نفس اس كى طرف جانے كے ليے تنازع بھى كرتا ہے.

اسى ليے صحيح حديث ميں اللہ عزوجل كا قول وارد ہے:

" روزے كے علاوہ ابن آدم كا ہر عمل اس كے ليے ہے، كيونكہ روزہ ميرے ليے ہے اور ميں ہى اس كا بدلہ دونگا؛ اس ليے كہ اس نے ميرے ليے اپنى شہوت اور اپنا كھانا پينا ترك كيا ہے "

اور پھر اس روزے ميں اللہ سبحانہ و تعالى كى المناك اقدار پر صبر كرنا ہے، جو روزے كى حالت ميں روزے دار كو بھوك اور پياس كى صورت ميں حاصل ہو سكتى ہے " انتہى

ديكھيں: جامع العلوم و الحكم ( 219 ).

اس ليے جس كسى نے بھى روزہ اللہ تعالى كے مشروع كردہ طريقہ كے مطابق ركھا اسے عظيم الشان اجروثواب حاصل ہو گا، اس كے ليے اسے درج ذيل فرمان بارى تعالى ہى كافى ہے:

صبر كرنے والوں كوب بغير حساب كے ان كا اجروثواب ديا جائيگا الزمر ( 10 ).

سوم:

مسلمان شخص معاصى سے اپنے روزے كو نقصان سے بچا سكے اس كے ليے اسے معصيت كے ارتكاب سے اجتناب كرتے ہوئے صبر سے كام لينا چاہيے.

بعض علماء كا كہنا ہے كہ: معصيت و نافرمانى كے ارتكاب سے صبر كرنا باقى دونوں صبر كى قسموں سے عظيم درجہ ركھتى ہے، اس ليے كہ شر و برائى كے اسباب جمع ہو كر اسے معصيت ميں واقع ہونے كى طرف دھكيلتے ہيں.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہاں ايك مسئلہ ايسا ہے جس ميں لوگوں نے كلام كى ہے:

اور وہ مسئلہ يہ ہے كہ صبر كى دونوں قسموں ميں افضل كونسى ہے ؟ آيا بندے كا معصيت و نافرمانى كے ارتكاب سے صبر كرنا، يا كہ اسكا اطاعت و فرمانبردارى كرتے ہوئے صبر كرنا ؟

ايك گروہ نے پہلے كو راجح قرار ديا اور كہا ہے كہ:

معصيت و نافرمانى سے صبر كرنا اور معصيت كا ارتكاب نہ كرنا صديقين كے وضائف ميں شامل ہوتا ہے، جيسا كہ بعض سلف كا قول ہے:

نيكى كے اعمال تو ہر نيك و فاجر شخص بھى كرتا ہے، ليكن معاصى و گناہ كو ترك كرنے كى طاقت تو صرف صديق ہى ركھتا ہے.

ان كا كہنا ہے: اس ليے كہ معصيت كے اسباب اور دواعى اطاعت ترك كرنے كے دواعى و اسباب سے زيادہ شديد ہيں؛ كيونكہ معصيت كے داعى ايك وجودى امر كى طرف دعوت ديتے ہيں جسے نفس بھى چاہتا ہے اور اس سے لذت حاصل كرتا ہے، ليكن ترك اطاعت كا داعى تو كسل و سستى اور اہانت ہے اس ميں كوئى شك نہيں كہ معصيت و نافرمانى كے داعى زيادہ قوى ہيں.

ان كا كہنا ہے كہ: اس ليے كہ معصيت و نافرمانى پر داعى نفس اور ھوى و خواہش اور شيطان اور دنياوى اسباب اور آدمى كے دوست اور مشابہت كى طلب اور نقالى كرنا،اور ميلان طبع يہ سب جمع ہو جاتے ہيں، يعنى ان ميں سے ہر ايك سبب بندے كو معصيت كى طرف كھينچتا ہے، اور اس كے اثر كو طلب كرتا ہے، تو پھر جب يہ سب جمع ہو كر دل پر دھاوا بھول ديں تو كيا حالت ہو گى، اور پھر صبر كى كونسى قسم اسے قبول نہ كرنے ميں طاقتور اور قوى ہو گى، اگر اللہ سبحانہ و تعالى اسے نہ لے جائے تو پھر اس سے صبر ہو نہ سكے.

جيسا كہ آپ ديكھ رہے كہ يہ قول قوى الحجت اور انتہائى ظاہر ہے " انتہى

ديكھيں: طريق الھجرتين ( 414 ).

معصيت و نافرمانى كے ارتكاب سے صبر كرنا كئى ايك اسباب كى بنا پر ہے، ہم اميد ركھتے ہيں كہ اس ميں غور و فكر كيا جائيگا كيونكہ اس كے اندر بيمارى كى تشخيص اور اس كا علاج بڑى باريك بينى سے كيا گيا ہے.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" معصيت و نافرمانى كے ارتكاب سے صبر كا قاعدہ اور اصول كئى ايك اسباب سے پيدا ہوتا ہے:

اول:

بندے كو علم ہونا كہ يہ معصيت قبيح اور ذليل چيز ہے اور گرى ہوئى ہے، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے اسے حرام كرتے ہوئے ذلت و رسوائى سے محفوظ ركھنے كے ليے اس سے منع فرمايا ہے، بالكل اسى طرح جيسے شفيق والد اپنى اولاد كو ضرر اور نقصاندہ چيز سے بچاتا ہے، يہ ايسا سبب ہے جو عقل و دانش ركھنے والے شخص كو اس كے نزديك جانے سے بھى روكتا ہے، چاہے اس پر عذاب و سزا كى وعيد معلق نہ بھى كى جائے تو وہ اسے چھوڑ ديتا ہے.

دوسرا سبب:

اللہ سبحانہ و تعالى سے شرم و حياء، كيونكہ جب بندہ اپنى نظر اللہ سبحانہ و تعالى كے مقام كو ديكھتا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى اس كو ديكھ رہا اور سب كچھ سن رہا ہے تو بندے كو شرم آتى ہے، اسے شرم و حياء محسوس ہوتى ہے كہ وہ اپنے آپ كو اللہ رب العالمين كى ناراضگى كا باعث بنائے.

تيسرا سبب:

اللہ سبحانہ و تعالى كى جو نعمتيں آپ پر ہيں ان كا خيال كريں، اور اللہ نے جو احسان كيا ہے اس كو مدنظر ركھيں؛ كيونكہ گناہ نعمتوں كے خاتمہ كا باعث بنتے ہيں، اس ليے جب بھى بندہ كوئى گناہ كرتا ہے تو اس گناہ كے بدلے اللہ سبحانہ و تعالى كى ايك نعمت زائل ہو جاتى ہے.

اور اگر بندہ توبہ كر كے رجوع كر ليتا ہے تو وہ نعمت واپس آ جاتى ہے يا پھر اس جيسى اور نعمت حاصل ہو جاتى ہے، اور اگر وہ گناہ پر مصر رہتا ہے تو وہ نعمت واپس نہيں آتى، اس طرح گناہ اس سے نعمتوں كو زائل كرتے رہتے ہيں حتى كہ اس سے سارى نعمتيں سلب كر لى جاتى ہيں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

يقينا اللہ سبحانہ و تعالى اس وقت تك كسى قوم كى حالت نہيں بدلتا جب تك وہ خود اپنے آپ كو نہيں بدلتے .

اور پھر سب سے عظيم نعمت ايمان ہے، اور گناہ كا ارتكاب اور چور و زنا اور شراب نوشى اور ڈاكہ وغيرہ يہ سب ايمان كو زائل اور سلب كر ليتى ہيں، بعض سلف رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ميں نے ايك گناہ كيا تو ايك برس تك قيال الليل سے محروم كر ديا گيا.

اور دوسرے سلف كا كہنا ہے:

ميں ايك گناہ كر بيٹھا تو مجھے فہم قران سے محروم كر ديا گيا، اس جيسے امور ميں ہى كہا گيا ہے:

اگر تم نعمت ميں ہو تو اس نعمت كا خيال كرو...

كيونكہ معاصى و گناہ نعمتوں كو زائل كر ديتے ہيں.

مختصر يہ كہ معاصى و گناہ ايك ايسى آگ ہے جو نعمتوں كو كھا جاتى ہے، بالكل اسى جرح جيسے آگ ايندھن كو كھا جاتى ہے، اللہ تعالى ہميں نعمتوں كے زوال سے محفوظ ركھے، اور اسے سزا ميں تبديل كرنے سے بچائے.

چوتھا سبب:

اللہ سبحانہ و تعالى كا خوف اور اس كے عذاب سے ڈر، يہ اس وقت ہو سكتا ہے جب اللہ سبحانہ و تعالى كے وعدے اور عيد كى تصديق كى جائے، اور اللہ سبحانہ و تعالى اور اس كى كتاب اور اس كے رسول پر ايمان لايا جائے.

يہ ايك ايسا سبب ہے جو علم ويقين سے قوى ہوتا ہے اور اس ميں كمزورى سے كمزور ہو جائيگا.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

نہيں سوائے اس بات كے اللہ سبحانہ و تعالى سے ڈرنے والے تو اس كے بندے علماء ہى ہيں .

بعض سلف رحمہ اللہ كا قول ہے:

اللہ سبحانہ و تعالى كى خشيت كے ليے علم كافى ہے، اور اللہ سے جہالت كے دھوكے ميں نہ رہا جائے.

پانچواں سبب:

اللہ سبحانہ و تعالى كى محبت: يہ اللہ كى مخالفت و نافرمانى سے صبر كرنے ميں قوى سبب ہے، كيونكہ جس سے محبت كى جاتى ہے اس كى بات مانى جاتى ہے، جب بھى دل ميں محبت قوى ہوگى تو اس كا تقاضا ہے كہ اطاعت كى جائے اور ترك مخالفت قوى ہے.

جب دل ميں اللہ كى محبت كمزور ہو جائے تو پھر معصيت و نافرمانى ہوتى ہے، جو شخص معصيت كو اپنے سردار كى سزا اور اس كے كوڑے كے ڈر پر محمول كرتا ہے اور جو اسے اپنے سردار كى محبت پر محمول كرتا ہے ان دونوں ميں فرق ہے...

چھٹا سبب:

نفس كا شرف اور اس كى طہارت و پاكيزكى اور اس كى فضيلت و حميت يہ ہے كہ وہ اسباب اختيار كيے جائيں جو اسے اور اس كى قدر ميں كمى كريں، اور اس كى قدر و منزلت ميں كمى كريں اور اسے حقير قرار ديں اور اس اور بےوقوفوں كو برار قرار ديں.

ساتواں سبب:

معصيت و گناہ كے برے انجام اور اس كے قبيح اثر كا قوى علم، اور اس كى بنا پر پيدا ہونے والا ضرر: چاہے وہ سياہ چہرے كى شكل ميں ہو يا پھر دل كى سياہى كى شكل ميں اور دل كى تنگى اور غم و حزن اور تكليف كى شكل ميں، اور شدت قلق و پريشانى كى شكل ميں، اور اپنے دشمن كے مقابلہ ميں كمزورى، اور اس كى زينت سے عاريت، اور اپنے معاملہ ميں حيرانى و پريشانى، اور اپنے دوست كى نصرت و مدد نہ كرنا، اور واضح دشمن كى مدد نصرت كرنا، اس كے ليے مستعد علم كا چھپ جانا، اور اس كے ليے جو حاصل ہونا تھا اسے بھول جانا يا كمزور ہونا، اور اس كى وہ مرض جب وہ مستحكم ہو جائے تو موت يہ ضرورى ہے كيونكہ گناہ دل كو مردہ كر ديتے ہيں....

اجمالى طور پر يہ كہ: قبيح معصيت ونافرمانى كے آثار بے شمار ہيں، اور اطاعت و نيكى كے آثار بھى بہت ہے جنہيں شمار ہى نہيں كيا جا سكتا اسے احاطہ علم ميں نہيں لايا جا سكتا.

دنيا و آخرت كى خير و بھلائى اسى ميں ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كى اطاعت كى جائے، اور دينا و آخرت كى برائى اور شر اللہ كى معصيت و نافرمانى ميں ہے.

ايك اثر ميں مروى ہے كہ اللہ كا فرمان ہے:

كون ہے جس نے ميرى اطاعت كى اور ميرى اطاعت سے بدبخت ہوا، اور كون ہے جس نے ميرى نافرمانى كى اور ميرى نافرمانى سے سعادت مند بنا "

آٹھواں سبب:

اميد كم كرنا، اور اس كى سرعت انتقال كا علم ركھنا كہ وہ ايك ايسے مسافر كى طرح ہے جو ايك ايسى بستى ميں داخل ہوا جہاں سے وہ جلد نكلنے والا ہے، يا پھر ايسے سوار كى طرح جس نے ايك سايہ دار درخت كے نيچے كچھ آرام كيا اور پھر اسے چھوڑ كر چلتا بنا.

اس ليے وہ اپنے علم كے مطابق كہ اس كا يہاں ٹھرنا بہت ہى قليل عرصہ كے ليے ہے اور بہت جلد يہاں سے منتقل ہو جائيگا وہ اس پر حريص ہے كہ اپنا بوجھ زيادہ نہ كرے اور جو اس كے ليے فائدہ مند نہيں اسے چھوڑ دے.

اس پر حريص ہے كہ جو كچھ اس كے پاس ہے وہ خير كى طرف منتقل ہو، اس ليے كم اميد كرنے سے زيادہ بندے كے ليے كوئى فائدہ مند چيز نہيں ہے، اور لمبى اميد اور كر لوں گا كر لوں گا سے زيادہ اس كے ليے كوئى نقصاندہ چيز نہيں ہے.

نواں سبب:

كھانے پينے اور لباس اور سونے اور لوگوں كے ساتھ اجتماع ميں فضول اور زيادہ سے اجتناب كرنا، كيونكہ ان سب زيادہ اشياء سے معاصى كے اسباب پيدا ہوتے ہيں، كيونكہ يہ مصرف كے طلبگار ہوتے ہيں تو اس كے ليے مباح ميں تنگى ہوتى ہے اس ليے وہ بڑھ كر حرام كى طرف جا نكلتا ہے.

بندے كے ليے سب سے نقصاندہ چيز اس كا فارغ رہنا ہے اس ليے نفس كو فارغ مت ركھيں، بلكہ اگر وہ اسے فائدہ مند اشياء ميں مشغول نہيں ركھےگا تو پھر وہ ضرور نقصاندہ اشياء ميں مشغول ہو جائيگا.

دسواں سبب:

يہ سبب مندرجہ بالا سب اسباب كو اپنے اندر جمع كيے ہوئے ہے: دل ميں ايمان كى ڈالى كو مضبوط كر كے پيدا كرنا اس ليے معاصى سے بندے كا صبر كرنا يہ اس كى قوت ايمان كے مطابق ہوتى ہے، اس ليے جتنا اس كا ايمان قوى ہوگا اسى قدر اس كا صبر بھى پورا ہوگا.

اور جب ايمان كمزور ہو جائے تو صبر بھى كمزور ہو جاتا ہے، اس ليے جس كا دل اللہ كے سامنے كھڑے ہونے اور اسے ديكھنے كو مدنظر ركھتے ہوئے اور اللہ كى حرام كردہ كو حرام كرتے ہوئے اور اللہ كے بغض و ناراضگى اور سزا كو مدنظر ركھتے ہوئے ايمان كو مضبوط كرتا ہے.

اور جو اپنے ايمان كو اجروثواب اور عقات و سزا اور جنت و جہنم كو مدنظر ركھتے ہوئے مضبوط كرتا ہے وہ ہر اس عمل سے باز آ جائيگا جو اس علم كا موجب ہے.

اور جس كا يہ گما ہے كہ ايمان راسخ كے بغير وہ مخالفات كو ترك كرنے پر طاقت ركھتا ہے تو اس كى يہ سوچ غلط ہے كيونكہ جب دل ميں ايمان كا چراغ قوى ہو اور اس كى روشنى ہر طرف پھيلى ہو اور وہ ہر طرف كو روشن كر دے تو يہ نور اور روشنى اس كے اعضاء ميں سرايت كر جاتى ہے، اور اس طرح ايمان كے سبب كو وہ جلد قبول كر ليتا ہے، اور وہ مطيع و فرمانبردار بن بغير كسى بوجھ كے اور ہنسى و خوشى اطاعت كرنے لگتا ہے.

بلكہ وہ اس كى دعوت سے خوش ہوتا ہے، بالكل اسى طرح جيسے كوئى شخص اپنے محبوب اور احسان كرنے والے كى دعوت سے خوش ہوتا ہے كہ يہ اس كے ليے عزت كا باعث ہوتى ہے، وہ ہر وقت اس كا انتظار كرتا ہے، اور اس كو دعوت پر لبيك كہنے كے ليے تيار رہتا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى اپنى رحمت كے ليے جسے چاہتا ہے چن ليتا ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى بڑے فضل والا ہے " انتہى

ديكھيں: طريق الھجرتين ( 408 - 414 ) مختصرا.

مسلمان شخص سے مطلوب يہى ہے كہ وہ اس حقيقت كو پہچانے كہ اللہ تعالى نے روزے سے كيا مراد لي ہے، اور اسے معصيت كے فعل كے دواعى اور اسباب كو پہچاننا چاہيے تا كہ وہ اس سے دور رہ سكے، اور اسے ناپسند كرے.

ابن قيم رحمہ اللہ كى جو كلام ہم اوپر نقل كر چكے ہيں وہ اسے بڑى اچھى طرح بيان كرتى ہے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 12468 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب