جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

كيا ہوٹل كا مالك كافروں اور روزہ نہ ركھنے والے مسلمانوں كو رمضان ميں دن كے وقت كھانا فروخت كر سكتا ہے ؟

سوال

ميں ايك غير ملك ميں رہائش پذير ہوں، ميرا ايك چھوٹا سا ہوٹل ہے ديكھتا ہوں كے بعض مسلمان روزہ نہيں ركھتے ـ اور وہ بہت زيادہ ہيں ـ اور ميرے ہوٹل ميں آكر دوپہر كا كھانا كھانا چاہتے ہيں، ان لوگوں كو كھانا فروخت كرنے كا حكم كيا ہے، اور اسى طرح غير مسلموں كو كھانا فروخت كرنے كا حكم بھى بيان كريں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اسى ويب سائٹ پر بہت سے سوالات كے جوابات ميں كفار ممالك ميں بودوباش اختيار كرنے سے اجتناب كرنے كا كہا گيا ہے، كيونكہ وہاں رہائش ركھنے ميں آدمى اور اس كے خاندان كے دن كو خطرہ ہے، نہ تو وہ اپنى اولاد كى تربيت صحيح طرح اسلامى طريقہ كے مطابق كر سكتا ہے، اور نہ ہى ان پر كنٹرول.

اور پھر ان ملكوں ميں رہنے كے ليے كام كاج كا عذر پيش كرنا كوئى عذر شمار نہيں ہوتا، اس كى مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 38284 ) اور ( 13363 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

دوم:

آپ كے مسئلہ كے متعلق عرض يہ ہے كہ: آپ كے ليے جائز نہيں كہ رمضان المبارك ميں دن كے وقت كسى شخص كو كھانا پيش كريں، ليكن اگر كوئى شخص معذور ہے، يعنى اس نے شرعى عذر كى بنا پر روزہ نہيں ركھا مثلا مسافر يا مريض تو اسے كھانا پيش كر سكتے ہيں.

اور اس حكم ميں كافر اور مسلمان كے مابين كوئى فرق نہيں، جس مسلمان شخص نے روزہ نہيں ركھا اسے روزہ ركھنے كا حكم تھا، اور اس نے روزہ نہ ركھ كر معصيت و نافرمانى كا ارتكاب كيا ہے، اور اسے رمضان المبارك ميں دن كے وقت كھانا پينا مہيا كرنا گناہ اور زيادتى پر تعاون ہے.

اور اسى طرح كافر شخص بھى روزے اور باقى احكام پر عمل كرنے كا پابند ہے اور وہ بھى اس خطاب ميں شامل ہے، ليكن اسے ان احكام پر عمل كرنے سے قبل كلمہ شھادت پڑھ كر اسلام ميں داخل ہونا ہوگا، اور كافر شخص كو كفر اور شريعت اسلاميہ كے احكام پر عمل نہ كرنے كى بنا پر روز قيامت عذاب ديا جائيگا، چنانچہ جہنم ميں اسے دوگنا عذاب ہوگا.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" محققين اور اكثر كا صحيح مذہب يہى ہے كہ: كفار شريعت كى فروعات كے مخاطب ہيں، چنانچہ ان پر بھى ريشم اسى طرح حرام ہے جس طرح مسلمانوں پر حرام ہے " انتہى.

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 14 / 39 ).

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

روز قيامت كافر كا حساب كيسے ہوگا، حالانكہ وہ شريعت اسلاميہ كا مكلف نہيں ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" يہ سوال غلط مفہوم لينے پر مبنى ہے؛ كافر سے بھى وہى كچھ مطلوب ہے جو مؤمن شيخص سے، ليكن فرق صرف اتنا ہے كہ كافر شخص پر دنيا ميں يہ لازم نہيں ہے، اس كى دليل كہ كفار سے بھى شريعت مطلوب ہے درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:

مگر دائيں طرف والے، جنتوں ميں مجرموں كے متعلق سوال كرينگے تمہيں جہنم ميں كس چيز نے داخل كيا ؟ وہ كہينگے ہم نہ تو نماز ادا كيا كرتے تھے، اور نہ ہى مسكينوں كو كھانا كھلايا كرتے تھے، اور ہم باتيں بنانے والوں كے ساتھ باتيں بنايا كرتے تھے، اور ہم روز قيامت كى تكذيب كيا كرتے تھے المدثر.

اگر نماز ترك كرنے اور مسكينوں كو كھانا كھلانا ترك كرنے كى بنا پر انہيں سزا نہ دى جاتى تو وہ اسے ذكر نہ كرتے؛ كيونكہ اس كا اس حالت ميں ذكر كرنے كا كوئى فائدہ نہيں، جو كہ اس بات كى دليل ہے كہ وہ بھى اسلام كى فروعات كے مخاطب ہيں.

جس طرح يہ اثر كا تقاضا ہے، تو اسى طرح نظر كا تقاضا بھى يہى ہے كہ جب اللہ تعالى مومن بندے كو دينى واجبات ميں كمى و كوتاہى كى بنا پر سزا دے گا تو وہ كافر كو كيسے سزا نہيں دےگا ؟

بلكہ ميں تو آپ كے ليے يہ چيز بھى زيادہ كرتا ہوں كہ كافر شخص كو اللہ تعالى كھانے پينے اور دوسرى ہر نعمت كے بدلے سزا دے جو نعمت اس پر كى گئى ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

جو لوگ ايمان لائے اور نيك عمل كيے ان پر اس چيز ميں كوئى گناہ نہيں جو وہ پہلے كھا چكے، اگر وہ متقى اور ايمان والے تھے، اور عمل صالح كيا تھا، پھر بھى متقى اور ايمان والے رہے، پھر تقوى اور عمل صالح كى راہ پر گامزن رہے اوراللہ تعالى اچھا كام كرنے والوں كو پسند كرتا ہے المآئدۃ ( 93 ).

اس آيت كا منطوق يہ ہے كہ مومن جو كچھ كھا چكے اس كا ان پر كوئى گناہ نہيں، اور اس كا مفہوم يہ ہے كہ: كافر جو كچھ كھاتے ہيں ان پر اس كا گناہ ہے " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 2 ) سوال نمبر ( 164 ).

اس بنا پر كسى بھى مسلمان شخص كے ليے رمضان المبارك ميں دن كے وقت كسى بھى غير مسلم كو كھانا پيش كرنا جائز نہيں، كيونكہ كفار بھى شريعت اسلاميہ كى فروعات كے مخاطب ہيں.

علماء كرام سے بيان كيا گيا ہے كہ: رمضان المبارك ميں دن كے وقت كفار كو كھانا فروخت كرنا حرام ہے.

ديكھيں: نھايۃ المحتاج ( 5 / 274 ).

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 49694 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب